کسی بھی ملک میں پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs)کا حصول تب ہی ممکن ہے جب اس نے اپنے داخلی اورخارجی صورت حال کے تناظرمیں ملکی ترقی اورامن کے لیے واضح اور بنیادی اصول مرتب کیے ہوں اور اس پر وہ کاربند ہونے کے لیے مسلسل جدوجہد کرتا رہے۔
موضوع کے انتخاب کی طرف توجہ عیدالفطر کے موقع پر بچوں اور نوجوان لڑکوں کی طرف سے جو کھلونے خریدے گئے اس میں بندوق، پستول اور کلاشنکوف سرفہرست رہے پھرانہوں نے ان کھلونوں کے ساتھ منسلک تفریحی کھیل ترتیب دیئے۔ اس کے ساتھ آجکل نوجوانوں نے موبائل فونز اور لیپ ٹاپ پر لڑائی والے کھیل (war Games)ڈاؤن لوڈ کی ہوتی ہیں جس کو وہ گروپ کی شکل میں کئی کئی گھنٹے کھیلتے ہیں اس میں لڑائی اور دوسرے کو اذیت دینے کے طریقوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔آن لائن”PUBG“گیم آجکل نوجوانوں میں بہت مقبول ہے اور وہ اپنا قیمتی وقت اور توانائیاں اس پر صرف کر رہے ہیں کئی ملکوں میں اس گیم پر پابندی ہے جب کہ لاہور ہائی کورٹ میں بھی اس گیم پر پاکستان میں پابندی کے لیے دائر درخواست زیر سماعت ہے اورعدالت عالیہ نے PTAکو ہدایت کی ہے کہ وہ 6ہفتے میں اس پر فیصلہ کرکے عدالت کو آگاہ کرے۔
آج سے نصف صدی پہلے قریباََہرکھیل میں کوئی نہ کوئی تخلیقی عمل اور جدت (Innovation)ہوا کرتی تھی جیساکہ گورکھ دھندے    Scrables,(Puzzle Rings) اور گیم کارڈ زپر بھی انسانی فلاح و بہود کے لیے کہانیاں اور فقرے درج ہوا کرتے تھے جن سے اب ہمارے بچے ہی نہیں بڑے بھی نا آشناہوچکے ہیں پہلے زمانہ کی زبان زد عام ”پیا ساکوا“، ”لالچی کتا“،”جیسی کہانیاں کہاں گئیں ”جن سے اخلاقی اقدار (Moral values)کا پتہ چلتا تھا۔بدقسمتی سے ہمارے سکول،کالجز کمرشل اداروں کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور تعلیم کا مقصد بھی موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں مالی منفعت کا حصول ہی رہ گیا ہے لیکن اس بات کو ہرگز بھولنا نہیں چاہیے کہ کوئی بھی معاشرہ امن،بھائی چارے اور انصاف کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا اس سلسلہ میں تعلیمی اداروں کو نوجوانوں کی کردار سازی کی طرف بھی بھرپور توجہ دینی چاہیے سکول کی دیواروں پر لکھے گئے جملے ”ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرو“،”کسی کو گالی مت دو“،”جھوٹ مت بولو“، ”کسی ایک آدمی کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے“، ”محنت میں عظمت ہے“، ”سلام دینے میں پہل کرو“،”مظلوم کی آہ اورخد ا کے درمیان کوئی پردہ نہ ہے“،”انصاف کے بغیر پر امن معاشرہ کا وجود نا ممکن ہے“کی جگہ ملک کی بیشتر آبادی کو نہ سمجھ آنے والی زبان انگریزی میں کچھ جملے نمایا ں کر دیئے گئے۔یہ عمل اور روئیے غور طلب اور فوری اصلاح طلب ہیں مزیدبرآں عدم برداشت اورطاقت کے استعمال کے رحجان میں خطرناک اضافہ کو جاننے کے لیے بہت سے دیگر معروضی حالات کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی اس کی ایک وجہ ملک میں جمہوری کلچر کا فقدان ہے عوام کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں میرٹ پر فیصلے نہیں کیے جاتے سیاسی جماعتوں نے کبھی ادارہ کی شکل اختیار نہیں کی۔سیاسی جماعتوں کے اندرجمہوری عمل کا نہ ہونا، نچلی سطح سے عوام کو موثر جمہوری عمل اور فیصلہ سازی میں شامل نہ کرنا، ملک کی آدھی آبادی (خواتین) اور کمزور طبقات کی موثر نمائندگی کا نہ ہونا عوام کی بہت بڑی تعداد کو ملکی ترقی کے معاملات میں شمولیت سے روکتا ہے جس سے ان کی ملکی ترقی میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے اور بوجوہ ذاتی مفادات انکی ترجیحات میں شامل ہو جاتے ہیں اوروہ اجتماعی سوچ سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں اس لیے عوام اب ملکی،صوبائی،علاقائی،سماجی،مذہبی اورسیاسی معاملات میں گروہ بندی (Polarization)کا شکار ہیں بات چیت،بحث و مباحثہ اورایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنے کی روایات دم توڑ چکی ہیں اورمعاشرہ تیزی سے عدم برداشت کی طرف گامز ن ہے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں جذباتی فیصلوں سے ملکی استحکام و ترقی کے حصول کی راہ کٹھن ہو جاتی ہے مصنوعی لائف سٹائل کو اندھا دھند اپنانا بھی ہمارے لیے بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے ہمیں فطرت کے قریب رہ کر زندگی گزار نا چاہیے فطری اور قدرتی ماحول سے دوری آپ کی بیماری،ڈپیریشن اورعدم برداشت میں اضافہ کرتی ہے جس سے آپ حقیقی خوشیوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔
پرامن اور مضبوط معاشرہ کی تشکیل اور عوام کو ایک قوم میں ڈھالنے کے لیے جس محنت اور توجہ کی ضرورت ہے اس پر ہم نے کوئی مخلصانہ کوشش نہیں کی۔ بڑے دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ملک کے سیاسی، مذہبی،سماجی راہنماؤں اوراستاتذہ نے ملک میں عوام کی کردار سازی پر بھر پور توجہ نہ دی اورابھی بھی سرکاری، غیر سرکاری،سماجی،مذہبی،سیاسی اورتعلیمی سطح پر اس سے متعلق کوئی جامع پالیسی زیر عمل یا زیر غور نہ ہے معاشرہ مذہبی،سیاسی،لسانی،برادری اور علاقائی گروہوں میں بٹ چکا ہے اوراسی بنا پرایک قوم کی شکل اختیا ر نہ کر سکا جس سے ملکی سطح پر ایک قوم کا تصور کمزور ہوا بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل کے لیے گروہی طاقت پر انحصار کیا جاتا ہے اور اب اس کا اثرو نفوذ اوپر سے نیچے تک حتی کہ ہمارے نابالغ بچوں کے ذہنوں پر بھی اثرانداز ہونے لگاہے اوروہ غیر شعوری طورپر اس سے متاثر ہو رہے ہیں جب تک ہم اس صورت حال سے متعلق ہر شعبہ زندگی کے لیے کوئی واضح،جامع اور قابل عمل قومی پالیسی مرتب اور اس پر ملک کے تمام طبقات نیک نیتی سے عمل شروع نہیں کرتے ملک میں قومی ترقی کی رفتار سست رہے گی اورجمہوری عمل کے مثبت اثرات حاصل نہیں کیئے جا سکیں گے۔

 

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*