پریس ریلیز

اسلام آباد، 19 فروری: پالیسی ساز اور سول سوسائٹی کے نمائندگان ، خواتین کے حقوق کے  تحفظ کے حوالے سے کام کرنے والےکارکنان، سرکاری حکام اور پانی کے ماہرین نے  ورکشاپ کے  دوران عورتوں، ، افراد باہم معذوری اور متاثرہ کمیونٹیزکو پانی کے وسائل کے انتظام میں بااختیار بنانے کی اشد ضرورت کے ساتھ ان کی پالیسی سازی کے مراحل میں شمولیت اور استعداد کار بڑھانے  پر زور دیا ۔ 

آج بروز بدھ یہ ورکشاپ پوٹھوہار آرگنائزیشن فار ڈویلپمنٹ ایڈوکیسی (پودا) اور واٹر ایڈ پاکستان  نے مشترکہ طور پرایک مقامی ہوٹل میں منعقد کی۔

اپنے کلیدی بیان میں محترمہ روبینہ خورشید عالم، کوارڈینیٹر وزیر اعظم پاکستان برائے ماحولیاتی تبدیلی و ہم آہنگی نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ پاکستان کا ماحولیاتی تبدیلی میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے اس کے باوجود اس حوالے سے بین الااقوامی سطح پر کیے گۓ  وعدوں کو تمام متعلقہ ادارے  ترجیحی بنیادوں پر رکھتے ہوئے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں کہ ہم اپنی کمیونٹیز کے بچاؤ کے لیے اقدامات کر نے کے ساتھ اپنا مثبت اور موثر کردار  ادا کر سکیں  تاکہ ہم آنے والی نسل کے لیے ایک محفوظ پاکستان میں بہتر مواقع اور تابناک مستقبل کو یقینی بنا سکیں۔ 

“ہمیں ماحولیاتی بحران کے نتیجے میں ہونے والے  شدید  نقصان دہ نتائج کا سامنا ہے۔ جیسے کہ موسمیاتی آفات کے انفراسٹرکچر، روزگار اور پسماندہ کمیونٹیوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ  ماحولیاتی آفات غذائی کمی، صنفی تشدد اور کم عمری کی شادیوں کو مزید بڑھا دیتی ہیں۔ ان حالات میں سب کو سب سطحوں پر کام کرنا ہو گا۔  ماحولیاتی پائیداری کو یقینی بنانے کے لئے خواتین سمیت معاشرے کے تمام افراد کو مل کر کام کرنا ہو گا”

۔ یہ کہنا تھا رومینہ خورشید عالم کا جو اس وقت  کوارڈینیٹر وزیر اعظم پاکستان برائے ماحولیاتی تبدیلی و ہم آہنگی ہیں  اور اس حوالے سے  بہت متحرک ہیں ۔

  پودا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر محترمہ ثمینہ نذیر نے کہا کہ “یہ ستم ظریفی ہے کہ خواتین، جو موسمیاتی آفات سے بہت زیادہ طور پر متاثر ہوتی ہیں، اکثر فیصلہ سازی کے مراحل سے غائب رہتی ہیں جہاں پالیسیاں بنائی جاتی ہیں اور فنڈز مختص کیے جاتے ہیں،”

ورکشاپ کا بنیادی مقصد  پانی، نکاسی آب، اور حفظان صحت(واش) کے قانونی اور پالیسی فریم ورک میں صنفی حساسیت اور ماحولیاتی لحاظ سے مستحکم طریقوں کو فروغ دینا تھا۔ اس ورکشاپ کا مقصد موجودہ خامیوں کو ختم کرنا، واش میں خواتین کی قیادت کو فروغ دینا، اور سب کے لیے پائیدار رسائی کو یقینی بنانا تھا۔

 واٹرایڈ پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر میاں محمد جنید اور رحیمہ پنور ، جنیڈر ایڈوائیزر،واٹر ایڈ پاکستان نے اپنے ادارے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوۓ کہا کہ قدرتی آفات میں سب سے زیادہ زد پر عورتیں اور دیہی آبادیاں ہیں   جو کہ غیر موثر پالیسیوں کی وجہ سے ممسلسل نقصان اٹھا رہی ہیں ۔ خصوصاً آفات میں جب پینے کو پانی میسر نہیں تو کیسے صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کے امور کےلیے پانی کی فراہمی ممکن  ہو سکتی ہے۔ اس طرح کی صورتحال کے لئیے ضروری ہے کہ متاثرہ طبقات کی فہم و فراست سے استفادہ حاصل کیا  جائے اور دوررس نتائج کی ضمانت دیتی ہوئی حکمت عملی کو اپنایا جائے تاکہ ہم وقت کا ضیاں کیے بغیر مزید نقصان سے بچ سکیں۔ 

مقررین نے نشاندہی کی کہ سب سے زیادہ ماحولیاتی لحاظ سے متاثرہ کمیونٹیز، جو زیادہ تر دیہی علاقوں میں رہتی ہیں، بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ یہ برادریاں اکثر شدید موسمی حالات جیسے کہ سیلاب، خشک سالی، اور شدید گرمی کی لہروں کا سامنا کرتی ہیں، جو نہ صرف زندگیوں کو متاثر کرتی ہیں بلکہ روزگار کے ذرائع کو نقصان پہنچاتی ہیں اور واش کی سہولیات سمیت بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیتی ہیں۔ 

انہوں نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ ناقص واش سہولیات اور غیر معیاری نکاسی آب کے باعث خواتین اور بچیاں غیر متناسب طور پر متاثر ہوتی ہیں۔ خواتین پر بنیادی طور پر پانی جمع کرنے، صفائی کا انتظام کرنے، اور دیکھ بھال کے کاموں کی ذمہ داری عائد کی جاتی ہے، جو موسمی آفات کے دوران مزید مشکل ہو جاتی ہیں۔ سیلاب، آلودہ پانی کے ذرائع، اور نکاسی آب کے نظام کو پہنچنے والا نقصان صحت اور صفائی کے مسائل کو مزید بڑھا دیتا ہے، خاص طور پر پسماندہ برادریوں کے لیے۔ 

اس ورکشاپ کا مقصد موجودہ  واش کے قانونی اور پالیسی فریم ورک کا جائزہ لینا تھا تاکہ صنفی مسائل اور ماحولیاتی مزاحمت کے پہلوؤں سے متعلق خامیوں اور چیلنجز کی نشاندہی کی جا سکے۔ اس کے علاوہ، اس ایونٹ کا مقصد خواتین کی قیادت کو فروغ دینا، ماحولیاتی مزاحمت کو بہتر بنانا، اور حکومت، سول سوسائٹی، تعلیمی اداروں، اور نجی شعبے کے شراکت داروں کے درمیان بہترین طریقوں اور اختراعی حلوں کے تبادلے کے لیے تعاون کو بڑھانا تھا۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*