جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی آبادی 22کروڑافراد پر مشتمل ہے اور اس کابیشتر حصہ دیہی علاقوں میں مقیم ہے ملکی معیشت میں زراعت کا کلیدی کردار ہے سال 2019میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کی مجموعی ملکی پیدا وار (GDP) تقریبا 320ارب ڈالر (50کھرب روپے) تھی جس میں 30فیصد حصہ شعبہ زراعت سے ہے پاکستان کی کل لیبر فورس میں سے 45فیصد اس سے منسلک ہے۔
”گندم”زراعت کا جھومر ہے دنیا بالخصوص پاکستان میں قابل کاشت اجناس میں جو مقام اس فصل کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں سوگندم انسانی زندگی کی ابتداء سے لے کر اب تک غذائی ضروریات پورا کرنے کا سب سے بڑا وسیلہ بلکہ اس کرہ ارض پر انسان کا وجود بھی اسی کامرھون منت ہے۔ یہ زر نقد کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے اور ابھی بھی چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں گند م دے کر دوسری ضروری اشیاء خریدی جاتی ہیں۔ کسان معاشرتی طور پر بھی اپنی زمین کے کچھ حصہ پر اپنے خاندان اور اپنے زیر کفالت افراد کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے گندم ضرور کاشت کرتے ہیں اور یہ بات ان کے لیے باعث فخر ہے کہ ”دانے“ان کے اپنے ”گھر“ کے ہیں۔ زبان زد عام پنجابی ضرب المثل ہے
”جدھے گھرد انٹریں ادھے کملے وی سیانٹریں“
آجکل گندم کی کٹائی کا سیزن ہے۔ کاشت کار کسان اور زرعی مزدور اس کا م میں زور شور سے مصروف عمل ہیں۔ پنجاب جسے اناج کا گھر کہا جاتا ہے اس مہینے ”بیساکھ“میں کاشت کار اس زرعی و معاشی عمل کے ساتھ ساتھ اسے ایک بہت بڑے ثقافتی تہوارمیلہ ”بیساکھی“ کے طور پر بھی مناتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ”کرونا“ کی موجودہ صورت حال میں وہ تمام لوگ جوگندم کی کٹائی،صفائی اور گہائی سے لیکر گندم کو گھر یا حکومت کے خریداری مراکز تک پہنچانے میں مصروف ہیں ان کی صحت کے لیے حفاظتی تدابیر کیا ہونی چاہیں ؟ جدید طریقہ کٹائی، صفائی سے اڑنے والی گرد، دھول اور مٹی کے مسئلہ سے کیسے نپٹا جا سکتا ہے ؟
اب سے پہلے گندم کی کٹائی اور گہائی کے طریقہ کار آج سے بہت مختلف تھے گندم کی فصل پکنے کے بعد بہت سارے لوگ اکٹھے ہو کر یعنی ”ونگار“کر کے منہ اور ناک پر کپڑا باندھ کر ”منڈاس“مار کر فصل کے ایک ایک پودے کو درانتی سے کاٹتے اور اس کے بعد اس گندم کو کسی دوسری جگہ بیلوں کی جوڑی سے گہائی کے لیے لے جاتے اور وہیں اس کا پھیلاؤ(کھلارا)ہوتا۔ اس کے بعد گندم اکٹھی کر کے محفوظ مقامات پر پہنچائی جاتی آج کل یہ سارا عمل ”ہارویسٹرز“او ر ”تھریشرز“سے ہوتا ہے۔ گندم کی کٹائی، گہائی اور بھوسہ الگ کرنے کے عمل میں اس وقت بہت زیادہ دھول، گرد اور مٹی اڑتی ہے جس میں پھپھوندی، جرثومے، کیمائی کھادوں کی باقیات، کترنے والے جانوروں کی گندگی، بال اور کیڑے مکوڑوں کی آمیزش شامل ہونے کا اندیشہ لاحق ہے جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے اس سے سانس کے علاوہ اور بہت سی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ بالخصوص بچے اس سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ جلد اور آنکھوں میں سوزش پیدا ہوتی ہے۔ آج کل بدقسمتی اور حکومت کی نااہلی کی وجہ سے شہری آبادیاں کھیتوں تک پہنچ گئی ہیں اور یہ دھول، مٹی اور گرد وہاں پر کام کرنے والوں کے ساتھ ساتھ وسیع آبادی کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کھیت میں کام کرنے والے اپنے کسان بھائیوں کی طرف بھی توجہ دیں۔ حکومت پنجاب نے اس ضمن میں ایک آگاہی مہم شروع کی ہے جس میں گند م کی کٹائی کے دوران وہاں پر کام کرنے والے لوگوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ دھول، مٹی سے بچنے بالخصوص کرونا کی موجودہ صورت حال کی وجہ سے ماسک پہن کر اور فاصلہ رکھ کر کام کریں۔ ہاتھ دھویں اور سینا ٹائیزر استعمال کریں۔ ہارویسٹر ز اور تھریشر ز سے اڑنے والی دھول کو کم کرنے کے لیے ”ڈسٹ بیگ“ یا جدید طریقہ جات کو اپنانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ گند م کے پودوں کی کھیتوں میں رہ جانے والی باقیات کو جلانے کے عمل سے جو”سموگ“ پیدا ہوتی ہے وہ انسانی زندگی کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ وفاقی حکومت سے درخواست ہے کہ وہ ”احساس“ پروگرام کے ذریعے گندم کی کٹائی کے دوران کسانوں کو ڈسٹ ماسک، سینا ٹائیزراور حفاظتی کٹ مہیا کر یں جب کہ زمیندار اپنے مزار عین کو یہ چیزیں دیں تاکہ وہ اس وائرس اور گرد مٹی کے نقصانات سے بچ سکیں محکمہ زراعت اپنے فیلڈ سٹاف کے ذریعے ان حفاظتی انتظامات کے ساتھ گندم خریداری مرکز اور گوداموں پر جراثیم کش سپرے کو یقینی بنائے۔
دنیا کے بیشتر ممالک میں اس مسئلہ پر قابو پانے کے لیے کافی عرصہ سے کوششیں کی جارہی ہیں ہمیں بھی مستقل بنیادوں پر اس مسئلہ کے حل کی طرف حکومتی اور انفرادی طورپر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے