کرونا وائرس کو منظر عام پر آئے تقریبا 3ماہ ہو چکے ہیں اور یہ وائرس اب عالمی وبا کی شکل اختیار کرچکا ہے جس سے متاثرین کی ایک واضع تعداد اب دنیا کے بیشتر ممالک میں موجود ہے یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو تا ہے بد قسمتی سے اس وائرس سے متاثرہ شخص کی جان بھی جا سکتی ہے پوری دنیا میں اب تک تقریبا 1,90,000افراد اس بیماری سے لقمہ اجل بن چکے ہیں 20لاکھ سے زائد افراد اس وائر س کا شکار ہو کر انتہائی کرب میں مبتلا ہیں تاحال اس کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا اوراس سے بچاؤ صرف ان احتیاطی تدابیر سے ہی ممکن ہے جس میں ماسک پہننے، باربار ہاتھ دھونے کے ساتھ ایک دوسرے سے دور رہنا ہے جسے ”سماجی فاصلے“ کا نام دیا گیا ہے۔
کرہ ارض پر بسنے والے موجود انسانوں کو پہلی دفعہ اپنی زندگی میں ذاتی طورپر اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے انسان فطری طورپر انسانوں کے ساتھ مل کر رہنے کا عادی ہے ہزاروں سال سے ترویج پاکرمعاشرہ نے مل جل کر کام کرنے اور اکٹھا رہ کرزندگی گزرنے کی شکل اختیار کر لی ہے۔کرونا وائرس کے اثرات نے ہمارے ذہنوں کو نفسیاتی اورسماجی طورپر متاثر کرنا شروع کر دیا ہے لوگوں کی معاشی اور غذائی ضروریات پورا کرنے کے ساتھ اس پہلو کی طرف بھی توجہ دینا ضروری ہے ماہرین نفسیات و سماجی علوم کے مطابق آئندہ دنوں میں یہ مسئلہ بھی شدت اختیار کر سکتا ہے۔
ہر شخص کرونا وائر س کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکارہے اس کو اپنی اوراپنے عزیزوں کی زندگی اس نظر نہ آنے والے وائر س اور بیماری کی وجہ سے مسلسل خطرہ میں نظر آتی ہے وہ اس خوف وڈر میں بھی مبتلا رہتا ہے کہ یہ وائرس اس کو یا اسکی وجہ سے دوسرے شخص میں نہ منتقل ہو جائے یہ ایک مسلسل عمل ہے جس سے اس نے بچنا اور اسکے ساتھ لڑنا ہے۔
دوسرا پہلو ”لاک ڈاؤن“ ہے جس میں لوگوں نے اپنے گھروں تک محدود رہنا ہے اورسماجی فاصلہ کو برقرار رکھتے ہوئے دوسرے امور زندگی بھی سرانجام دینے ہیں ایسی صورتحال اس جدید معاشرتی زندگی نے پہلے کبھی نہ دیکھی اور نہ ہی معاشرہ اس کا عادی ہے جس کی وجہ سے شدید ذہنی کشمکش میں مبتلا ہے وقتی طورپر اس کو اپنی مروجہ ثقافتی، تہذیبی،اجتماعی اورعبادتی معمولات میں سماجی فاصلے کے ذریعہ احتیاط برتنے کو کہا جا رہاہے سماجی علوم کی زبان میں انسان ایک (Social Animal)ہے جس کا سماج اورسماجی زندگی سے کٹ کر رہنا اس کی جبلت کے خلاف ہے۔
تیسرا پہلو کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی طوالت اور اس معاملہ سب سے اہم اس کی معیاد کے متعلق غیر یقینی صورتحال ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس اعصابی جنگ میں اضافہ ہونا ایک فطری بات ہے ماہرین نفسیات کے مطابق کسی بھی انسان کے لاک ڈاؤن اور قرنطینہ ہونے سے اس کے اندر خوف، بے چینی، غصہ، اداسی اور مایوسی کے عناصر جنم لے سکتے ہیں کیونکہ موت سے زیادہ موت کا خوف تکلیف دہ ہوتاہے یہ ذہنی دباؤ اس کی جسمانی اور ذہنی صحت پر اثرانداز ہو سکتاہے۔
عالمی لاک ڈاؤن کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت متزلزل ہے انفرادی طورپر ہرشخص پر اپنے روزگار کے معاملہ میں مستقبل کی امکانی صورت حال واضح نہ ہے ترقی یافتہ ممالک اس ساری صورت حال کے سامنے بے بس ہیں ترقی پذیر اور غریب ممالک میں بسنے والے شہریوں کے لیے اس کی سینگنی اور شدت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتاہے۔
لیکن یاد رکھیے!”پریشانی اس کا حل نہیں“ بلکہ ماہرین نفسیات کے مطابق اس چیلنج کا دفاع ہم بخوبی کرسکتے ہیں یقینا اس وقت اس بیماری کی کوئی دوا تیار نہ ہوئی لیکن انسان کا اپنا”جسمانی دفاعی نظام“ ہی مقابلہ کر کے اس کو اس وبا سے بچا سکتاہے جتنا ہمارا جسمانی دفاعی نظام مضبوط ہوگا اتنا ہی اس وائر س کے وار سے محفوظ رہیں گئے ماہرین کے مطابق خوف، ڈر، مایوسی وغیرہ انسان کے دفاعی نظام (Immune Systemّ)کو کمزور کرتے ہیں۔جب کے خوشی، امید اور مثبت سرگرمیاں اس نظام کو طاقت ور بناتی ہیں۔
٭اس لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے ذہنی دباؤ، خوف،مایوسی کو کم کرنے کی کوشش کر کے اس نئی صورتحال میں اپنے آپ کو ڈھالنے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے۔
٭ضرورت سے زیادہ بلاوجہ غیر تحقیق شدہ اطلاعات سے اپنے ذہن پر مزید بوجھ ڈال کر اپنے آپ کو پریشان کرنے سے باز رہنا چاہیے۔
٭اپنے جسمانی دفاعی نظام کو بہتر رکھنے کے لیے اپنی غذا،صفائی اور صحت کا خاص خیال رکھیں۔
٭سماجی فاصلوں کے ساتھ اپنے عزیزوں، دوستوں،رشتہ داروں کے ساتھ سماجی رابطہ،بات چیت ذہنی دباؤ کو کرم کرنے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتاہے
ادارہ ”پودا“ کی قانونی،سماجی،نفسیاتی مسائل کے حل کے لیے مشاورتی فری ہیلپ لائن کے ساتھ منسلک ہونے سے موجودہ حالات میں میری یہ مودبانہ رائے ہے کہ ہم سب کو مل کر کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال میں لاک ڈاؤن بالخوص قرنطینہ افراد کو ذہنی دباؤ خوف، مایوسی سے نکالنے اور حوصلہ،امید کے ساتھ زندگی گزرنے کا مشورہ دینے اور انکے نفسیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے سرکاری اورغیر سرکاری تنظیمیں ”سماجی نفسیاتی معاملات میں مشاورت کے لیے فری ہیلپ لائن“ قائم کریں۔
اگر ہم خوش رہیں گے اوراوپر دی گئی ہدایات پر عمل کریں گے تو ہمارا دفاعی نظام مضبوط ہو گا ہم اس وائرس سے لڑ کر اس مشکل وقت کو عبور کرکے دوبارہ یقینا خوشیوں بھری زندگی گزاریں گے۔ (اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو