کسی بھی پاکستانی شہری کے لیے قومی شناختی کارڈبنیادی دستاویز ہے جو اسکے پاکستانی شہری ہونے کا قانونی ثبوت ہے کوئی بھی شخص تب ہی اس ملک کے عطا کر دہ آئینی، قانونی حقوق و مراعات کا حق دار ہوتا ہے جب وہ اس ملک کی قانونی شہریت رکھتا ہو اور اس کے پاس اس ملک کی طرف سے اس امر کی بابت جاری شدہ کوئی قانونی دستاویز ہو۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ”نادرا“ (نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی) کی طرف سے جاری کردہ قومی شناختی کارڈکسی بھی شخص کے لیے اس کی شہریت کی شناخت کے ساتھ دیگر بہت سے امور کے لیے لازمی ہے۔ از قسم اس کے بغیر آپ اپنے نام سے بینک اکاؤنٹ نہیں کھلوا سکتے اور نہ ہی اس میں کوئی لین دین کر سکتے ہیں۔ موبائل فون کی ”سم“حاصل کرنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے۔کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن سے ملکی معیشت پرجومنفی اثرات مرتب ہوئے اس میں معاشرہ کے کمزور طبقات کو ریلف پہنچانے کے لیے حکومتی امدادی سکیموں سے تب ہی استفادہ کیا جاسکتا ہے جب آپ کے پاس قومی شناختی کارڈ موجود ہو اورآپ کے اپنے نام کی موبائل فون کی”سم“ ہو۔ بہت سے ضرورت مند صرف ان دو چیزوں کے نہ ہونے کی وجہ سے اس کے حق دار نہ ٹھہرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ احسا س پروگرام نے قومی شناختی کارڈکی افادیت کو اجاگر کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔”نادرا“ عوام کو قومی شناخت کے حوالے سے خدمات فراہم کرنے والا وفاقی سطح کا ایک سرکاری ادارہ ہے جو آج کل کورونا لاک ڈاون کی صورت حال کے دوران بھی اپنی معمول کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ احساس پروگرام کے ثمرات عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے فرنٹ لائن پر فرائض سرانجا م دے رہا ہے۔ نوید جان شہزاد ڈاریکٹر جنرل نادرا سرگودھا ڈویژن کے مطابق سرگودھا،فیصل آباداور گوجرانوالہ کے 9اضلا ع میں نادرا رجسٹریشن سنٹرز اور MRV(موبائل رجسٹریشن وہیکل)کے ذریعے تمام حفاظتی اقدامات کے ساتھ موجودہ صور تحال دفتر کھلنے کے دس روز میں تقریبا 60ہزارلوگوں نے رجوع کیااور ان کی داد رسی ہوئی۔
قومی شناختی کارڈ کی ایک اور اہم ضرورت و اہمیت ووٹ ڈالنے کا حق ہے اور آپ اس وقت یہ حق استعمال کر سکتے ہیں جب آپ کے پاس قومی شناختی کارڈ ہو جو کہ آپ کے علاقہ کی ترقی اور مسائل کے حل کے لیے فیصلہ سازی کے عمل میں آپ کی موثر شرکت کے لیے پہلی سیڑھی بھی ہے اس کے ساتھ چند ضروری کام جو اس کے بغیر ممکن نہ ہیں۔
٭ بجلی، گیس اور پانی کے کنکشن کے حصول کے لیے
٭ زمین کی خرید و فروخت، انتقال، وراثت اور رجسٹری کے لیے ٭ ڈرائیورنگ لائسنس بنوانے کے لیے
٭ پاسپورٹ کا اجرا ٭ گاڑیوں کی خریدو فروخت کے لیے
٭ اندرون و بیرون ملک سفر کرنے کے لیے ٭ کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ کے حصول کے لیے
٭ انشورنش پالیسی حاصل کرنے کے لیے ٭ کمپنی رجسٹر کروانے کے لیے
٭ ٹیکس نمبر کے حصول کے لیے ٭ بیان حلفی داخل کرنے کے لیے
٭ اشٹام پیپر خریدنے کے لیے ٭ عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کے لیے
اوپر درج کی گئی معلومات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پاکستانی شہری بغیر قومی شناختی کارڈ عملی زندگی میں کوئی مثبت و موثر کردار ادا نہ کرسکتا ہے۔ نادرا قومی شناختی کارڈ بنانے، اس کی تجدید کرنے، منسوخ کرنے یااس میں تبدیلی کرنے کے لیے حکومت پاکستان کا خود مختار ادارہ ہے جو سال 2000سے شناختی کارڈبنانے اور اس کے سارے ریکارڈ کا انتطام و انصرام کرتا ہے کوئی بھی شہری جس کی عمر 18سال ہو وہ شناختی کارڈ بنوانے کا اہل ہے اس سے پہلے بچے کی پیدائش پر اس کا نام ”فارم ب“ میں گھرانہ کے فارم میں درج کروایا جاتا ہے۔ اس وقت ادارہ کی طرف سے شہریوں کو CNIC”کمپیوٹررائز ڈ قومی شناختی کارڈ“اور SNIC”سمارٹ قومی شناختی کارڈ“ کی شکل میں قومی شناخت کی دستاویزات جاری کی جاتی ہیں۔ سمارٹ قومی شناختی کارڈ پاکستان کا پہلا قومی الیکٹر انک شناختی کارڈ ہے جس کے اندر ایک ڈیٹا چپ (Data Chip)لگائی گئی ہے جس میں اس شخص کے متعلق ضروری معلومات موجود ہوتی ہیں اس کارڈ میں سیکورٹی فیچرز بھی لگائے گئے ہیں تاکہ آپ کی معلومات کو محفوط رکھا جاسکے اور اس کو کوئی (Hack)چھیڑ نہ سکے۔ اس کے ساتھ اس کارڈ میں آپ کی سہولت کے لیے دیگر فیچرز بھی موجود ہیں جس سے یہ دیگر کاموں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جیسے صحت کارڈ، سٹوڈنٹ کارڈ، ڈرائیورنگ لائسنس وغیرہ قومی شناختی کارڈ بذات خود بھی دیگر کئی معلومات فراہم کرتا ہے اس کارڈ کا نمبر 13ہندسوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کا ہر حصہ ایک ترتیب سے آپ کو کچھ بنیادی معلومات فراہم کر رہا ہوتا ہے اس کے پہلے پانچ ہندسے کارڈ ہولڈ رکے علاقہ کی نشاندہی کر رہے ہوتے ہیں۔ پہلا ہندسہ صوبہ دوسرا ہندسہ ڈویژن تیسر ا ہندسہ ضلع چوتھا تحصیل اور پانچواں ہندسہ اس کی یونین کونسل کو ظاہر کرتا ہے اگر پہلا ہندسہ کارڈ کا”1“ہے تو وہ شخص صوبہ خیبر پختونخوا ہ 2فاٹا 3پنجاب 4سندھ5بلوچستان 6اسلام آباداور 7گلگت بلتستان کا رہائشی ہے۔ اسکے بعد 7نمبرنادرا آفس کی اپنی ترتیب و انتطام کے لیے مختص ہیں اور آخری ہندسہ اگر طاق (1.3.5.7.9)ہے تو وہ کارڈ مرد کا ہے اور اگر جفت(2.4.6.8) یا اس کے آخر میں 0آتا ہے تو وہ کسی عورت کا کارڈ ہے۔یقینا قومی شناختی کارڈ آپ کی بہت اہم اور حساس دستاویز ہے اس کی حفاظت کرنا اور اس کو غلط استعمال سے محفوظ رکھنا ہماری اولین ذمہ داری ہے وگرنہ اس کا غلط استعمال ہمیں کافی نقصان پہنچا سکتا ہے اس لیے مندرجہ ذیل احتیاطوں کو بھی اپنے ذہن میں رکھیں۔
٭فوٹو کاپی ہمیشہ اپنے سامنے کروائیں اور خراب کاپی واپس لے لیں۔
٭ کسی بھی جگہ فوٹو کاپی یا اصل شناختی کارڈ کسی غیر متعقلہ یا ناواقف شخص کو کبھی نہ دیں۔
٭ فوٹوکاپی دیتے وقت اس کے دونوں طرف فوٹو کاپی دینے کا مقصد درج کریں۔
٭ آپ کے شناختی کارڈ پر اگر کوئی ایسی سم رجسٹرڈ ہے جو آپ کے علم میں نہ ہو اسے فوری طور پر ختم کروائیں۔
یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ کچھ عرصہ پہلے تک اگر آپ نادرا آفس شناختی کارڈ میں نام یا تاریخ پیدائش کی تبدیلی کے لیے رجوع کرتے تھے تو آفس کا عملہ ا س معاملہ میں عدالتی ڈگری طلب کرتا تھے لیکن اب لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ یہ کام نادر ا ازخود بھی کرسکتا ہے۔ PLD 2018 Lahore 378اس کے ساتھ نادرا کسی بھی شخص کا بغیر وجہ کے کارڈ”بلاک“ نہیں کر سکتا۔ PLD 2017 Sindh 587اس کے علاوہ آپ نادرا آفس سے رجوع کر کے اپنے شناختی کارڈ کے حوالے سے اپنی اور اپنے گھرانہ کی تفصیلات بھی معلوم کر سکتے ہیں۔
نادرا ایسے بچوں جن کی عمر 18سال سے کم ہے ان کے لیے) (Juvenile Card اس کے نام سے جاری کر رہا ہے جس کے لیے نابالغ کا نادرا آفس میں پیش ہونا والدین میں سے کسی ایک کا بائیومیٹرک کروانا اور فارم ب ہونا ضروری ہے۔ اوور سیز پاکستانیو ں کے لیے قومی شناختی کارڈ برائے اوور سیز پاکستانینزبھی جاری کیا جاتا ہے سب سے قابل تعریف خواجہ سراؤں اور معذور افراد کے لیے شناختی کارڈ کا اجرا ہے اس طرح یہ کمزور طبقات بھی اپنے قانونی اور آئینی حقوق کو بطور پاکستانی شہری عزت اور احترام سے حاصل کر سکیں گے۔ قومی شناختی کارڈ بنوانا ایک قومی فریضہ ہے ہم سب کو مل کر لوگوں کو اس طرف راغب کرنا چاہیے کہ وہ اپنی اس بنیادی ذمہ داری کو پورا کر کے پاکستان کی ترقی کی جہدوجہد میں عملی طور پر شریک ہو جائیں۔