خواجہ زاہد نسیم لیگل ایڈوائزر۔پودا پاکستان
پاکستان کو معرض وجود میں آئے تقریبا 75سال ہو چکے ہیں اور یہ دنیا کے نقشہ پر ہماری شناخت اور اس کاوجود مسلمہ حقیت ہے آزادی کے بعد کچھ لغزشوں کے باوجود عوام، سرکاری و غیرسرکاری اداروں کی مسلسل کاوشوں اور محنت کی وجہ سے ملک ترقی اور استحکام کی طرف گامز ن ہے کسی بھی ملک کو آزاد ہونے کے بعد اپنا نظم و نسق چلانے کے لیے وقتی ضرورت کے تحت قوانین اور ضوابط بنانے پڑتے ہیں لیکن وقت گزرنے اور زمینی حقائق بدلنے کے ساتھ قومیں اپنے قوانین میں عوام کی سہولت کے لیے بہتری لاتی رہتی ہے اور ترقی کا یہ عمل زندہ قوموں کے علاوہ، فلاحی ریاست اور اچھی حکومت کی دلیل ہوا کرتا ہے آج کے موضوع پر بات کریں تو سب سے پہلے ہمیں ”ڈومیسائل“ کے بارے میں سمجھنا ہوگا کہ یہ کسے کہتے ہیں، اس کی قانونی تعریف کیا ہے، پاکستان میں اس کی ضرورت کیوں پیش آئی، کس قانون کے تحت یہ دستاویز (Document)درکار ہے اور کیا قومی شناختی کارڈ کے ہوتے ہوئے بھی اب اس کی ضرورت ہے؟یا اس کی تیاری میں بہتری اور اصلاح کی گنجائش موجود ہے؟ اگرہم ڈومیسائل کی تعریف دیکھیں تو یہ کسی بھی شخص کی مستقل رہائش والا ملک ہے۔ پاکستان میں بھی ڈومیسائل ”دی پاکستان سیٹزن شپ ایکٹ 1951کی سیکشن 17اور رول 23کے تحت درکار شرائط و ضوابط کے تحت تیار کیا جاتاہے۔سٹیزن شپ (شہریت) کی تعریف میں اس شخص کا کسی خاص ملک سے دائمی تعلق یا نسبت کو واضح کرنا ہے یہ قانون پاکستان قائم ہونے کے چار سال بعد اس وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بنایا گیا جب ملک دولت مشترکہ کا حصہ تھا اور ہندوستان سے ہجرت کر کے بھی بہت سے لوگ پاکستان آباد ہو رہے تھے تو ملکی شہریت کے حوالے سے یہ قانون سازی کی گئی۔ ڈومیسائل کے حصول کے لیے دیگر رہائشی و شناختی دستاویزی ثبوت کے ساتھ فارم P & P1 سٹیزن شپ رولز 1952درکار ہوتے ہیں جن کو پر کر کے دینا ہوتاہے فارم Pمکمل طورپر ان معلومات یقین دہانیوں کے متعلق ہے کہ آپ کب ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے اوراب آپ کا مستقل طورپر پاکستان میں آباد ہونے کا ارادہ ہے اورفارم P1جس پر ڈومیسائل تیار کر کے دیاجاتاہے اس پر ڈومیسائل کی جگہ پر رہائش پذیر ہونے کی تاریخ درج کرنا مقصود ہے اگر اسے پاکستان کے حوالے سے ہی دیکھیں تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی جگہ پر ایک خاص مدت تک رہنے سے آپ وہاں کا ڈومیسائل حاصل کر سکتے ہیں ڈومیسائل کے حصول کے لیے درخواست گزار کو اپنا شناختی کارڈ، فارم Bکی صورت میں والدین کا شناختی کارڈ وغیرہ درخواست کے ساتھ پیش کرنا ہوتے ہیں یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ قومی شناختی کارڈ بنوانے کے لیے اس شخص کو اپنی تمام سکونتی، ذاتی اور خاندان کے متعلق معلومات، ”نادرا“کو فراہم کرنا ہوتی ہیں۔نادرا (دی نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی) کے قیام کا مقصد ہی ملک میں بسنے والے تمام اشخاص کی رجسٹریشن اور اس کا ڈیٹا بیس ریکارڈ ررکھنا مقصود ہے اور اب تو اس کو ملک کے کئی مالیاتی، انٹرنیٹ اور سول اداروں سے منسلک کر دیا گیا ہے جس سے آ پ کوئی بھی سہولت آن لائن حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ ادارہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی آرڈنینس2000کے تحت وجود میں آیا پاکستانی شہری کی تمام معلومات شناختی کارڈ کے اوپر درج ہوتی ہیں۔شناختی کارڈ کا نمبر 13ہندسوں پر مشتمل ہوتاہے اوراس کا ہر حصہ ایک ترتیب سے آپ کو کچھ بنیادی معلومات فراہم کررہاہوتاہے اس کے پہلے پانچ ہندسے کارڈ ہولڈر کے علاقہ کی نشاندہی کر رہے ہوتے ہیں پہلا ہندسہ صوبہ دوسرا ہندسہ ڈویژن تیسرا ہندسہ ضلع،چوتھا ہندسہ تحصیل اور پانچوں ہندسہ اس کی یونین کونسل کو ظاہر کرتاہے۔اگر پہلا ہندسہ کارڈ کا 1ہے تو وہ شخص خیبر پختونخواہ، 2فاٹا،3پنجاب،4سندھ،5بلوچستا ن،6اسلام آباداور 7گلگت بلستان کا رہائشی ہے اس کے بعد 7نمبر ”نادرا آفس کی اپنی ترتیب و انتظام کے لیے مختص ہیں اور آخری ہندسہ طاق (1,3,5,7,9) ہے تو وہ کسی مرد کا کارڈ ہے اور اگر جفت (2,4,6,8)یا اسکے آخر میں 0آتا ہے تو وہ عورت کا کارڈ ہے شناختی کارڈ کے اوپر بھی اس شخص کا عارضی اور مستقل پتہ دونوں درج ہوتے ہیں۔پاسپورٹ ایکٹ 1974میں نافذ العمل ہوا۔ دنیا میں کسی شخص کے پاس جس ملک کا پاسپورٹ ہو اس کو اس ملک کا شہری تصور کیا جاتاہے پاکستان میں پاسپورٹ بنوانے کے لیے”شناختی کارڈ“ کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ ”ڈومیسائل“ کی الغرض مدعایہ ہے کہ ”نادرا“ کی طرف سے جاری شدہ شناختی کارڈ پریا ”نادراآفس“ میں ہر شخص کی وہ تمام مطلوبہ معلومات ہوتی ہیں جو کہ ”ڈومیسائل“ کی تیاری کے لیے درکار ہوتی ہیں لیکن موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اعلی تعلیمی اداروں میں داخلہ اور سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لیے ڈومیسائل طلب کیاجاتاہے جس سے لاکھوں لڑکوں اور لڑکیوں کو ڈومیسائل بنوانے کی مشقت سے گزرنا پڑتاہے ڈومیسائل عمومی طورپر ضلع ہیڈکواٹر یا تحصیل ہیڈ کواٹر میں تیار ہوتاہے جس کی وجہ سے ان تمام بچوں کو اپنے والدین کے ہمراہ اپنے گھر سے کئی کئی میل دور جانا پڑتاہے کام کرنے والے اب ہمارے ملک میں ایک قانون کے تحت کام کرنے والا نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) جیسا ادارہ معرض وموجود میں آچکا ہے جس کے پاس ہر درخواست گزار کے بارے میں تمام معلومات کا ریکارڈ موجود ہے تو پھر ڈومیسائل کے لیے علیحدہ سے مشق کرنا ضروری نہیں لیکن اس کے باوجود اگر کوئی خاص دیگر معلومات درکار ہو جو کہ بادی النظر میں نہیں یہ کام بھی ”نادرا“ شناختی کاری بناتے وقت پوری کر سکتا ہے ہمیں آگے بڑھ کر اپنے آپ کو ایک فعال اور ترقی پذیر ملک ہونے کا ثبوت دینا چاہیے نہ کہ ایک جامدو ساکت قوم کا۔اللہ تعالی ہمیں آسانیاں باٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔